Imran Khan UNGA Speech

اقوام متحدہ کےاجلاس میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان کی یہ دوسری تقریر تھی۔ عمران خان کی تقریر ریکارڈیڈ تھی۔ عمران خان مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ 

وزیراعظم نے تمام اراکین کا شکریہ ادا کی اور والکن فاسکر کی اقوام متحدہ کی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔

وزیراعظم نے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے میری گورنمنٹ بنی ہے اس وقت سے ہماری کوشش ہے کہ نیا پاکستان مدینہ کی ریاست کے اصولوں کے مطابق ہو جس کو ہمارے پیارے نبیﷺ نے قائم کیا تھا۔  مدینہ کی ریاست جس میں عام شہریوں کو غربت سے نکالنا اور یکساں انصاف دلانا اہم پالیسی تھی۔

غربت سے نکلنا اور انصاف کا نظام قائم کرنے کے لئے امن اور استحکام لازمی عنصر ہے۔ اسی وجہ سے پڑوسی ممالک میں امن ایک ملک کے خارجہ پالیسی کی بنیادی مقاصد میں آتا ہے اور یہ مقاصد مزاکرات سے ممکن ہے۔ 

وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ واحد ادارہ جو مدد کر سکتا ہے اوردو ملکوں کے بیچ منتازعات کو حل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 

وزیراعظم نے اقوام متحدہ کو کشمیروں کے ساتھ کی گئی وعدوں کو یاد دلایا۔ جہاں کشمیروں پر تاریخ کی بدترین ظلم ہو رہا ہے۔ ان کی آزادی کے حقوق کو غصب کیا جا رہا۔ نہتے کشمیروں پر اسلحہ کی زور سے قبضہ کرنا اور زبردستی الحاق کرنا  انتہائی تشویش اور خطے میں بے چینی پیدا کر رہا ہے۔ دو جوہری طاقتوں کا اپس میں ایسے تنازعات انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کویڈ 19 میں غریب ملکوں کی معیشت جو بری طرح اس وبا میں متاثر ہوا اس پر بات کرتے ہوے کہنا تھا کہ اگر ہم اپنے ملک میں سخت لاک ڈاون کرتے تو وبا سے زیادہ لوگ بھوک سے مر جاتے۔ اسی وجہ سے ہم نے سمارٹ لاک ڈاون پر عمل کیا۔ ہم نے زرعی سیکٹر کو فوری طور کھول دیا اور اس کے بعد ہم نے تعمیراتی سیکٹر کھول دی جس سے زیادہ تر ہماری اعوام کی روزی روٹی ہے۔ اس کے علاوہ معیشت کی ابتر حالت کے باوجود ہم نے احساس پروگرام کے ذریعے 8 ارب ڈالر صحت اوراپنےغریب طبقےکوسہارا دینےکے لئے تقسیم کی۔

وزیراعظم نے منی لانڈرینگ کے حوالے سے کہنا تھا کہ غریب ممالک سے پیسہ غلط طریقے سے مضبوط معیشت والے ممالک میں جاتا ہے جہاں پر کوئی قانون سازی نہیں روک تھام کی جس کے نتیجے میں غریب ممالک کی معیشت تباہ ہو رہا ہے۔ اس پر میں نے اپنے پہلے تقریر میں بھی بات کی تھی۔ کرپٹ عناصر کو پیسہ ترقی پزیر ممالک سے ترقیافتہ ممالک میں بیجھنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نے گلوبل کلائمٹ پر بات کرتے ہوے کہنا تھا کہ ہمارے گورنمنٹ نے ایک پراجیکٹ شروع کی ہے جس میں اگلے تیں سالوں میں دس ارب درخت لگانا ہے تاکہ کلائمٹ چینجیز کے خطرات کو کم کر سکے۔

اس کے علاوں وزیراعظم نے اسلام فوبیا پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ رائے دہی کے آزادی کے نام پر قرآن مجید کو جلایا گیا، ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی۔ اس سے مسلمانوں کی دل ازاری ہوئی۔ اس عمل کا روکنا انتہائی اہم ہے۔

ایک ہی ملک جو اسلام فوبیا میں پیش پیش ہے وہ انڈیا ہے جس میں آرایس ایس کی گورنمنٹ ہے جو ہیٹلر کے پالیسی سے متاثر ہو کر بنا تھا جو سمجھتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندؤں کی ہے۔ باقی مذاہب کے شہریوں کو کم تر سمجھتا ہے۔ 1992 آر ایس ایس نے بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور گجرات میں وزیراعلیٰ موڈی کے نگرانی میں سن2002 میں تقریباً 2000 مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ 2007 میں پچاس سے زیادہ مسلمانوں کوآر ایس ایس نے زندہ جلایا۔

وزیراعظم نے انڈیا کی مقبوضہ کشمیرمیں ناجائز قبضے پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انڈیا سلامتی کونسل کے قرار دادوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ کشمیر میں تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ بہادر کشمیری کبھی بھی قابض انڈیا کو قبول نہیں کرے گا۔