Secularism and Islam
Woman March and Secularism 


مذہب کی تسلط سے آزاد زندگی گزارنے کی تحریک کو سیکولرزم (Secularism) کہا جاتا ہے۔ دوسری معنی میں اس کو دہریت(Atheism) بھی کہا جاتا ہے۔ آج کل یہ فتنہ پاکستان میں بڑی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے. اس فتنے کی ایک جھلک 8 مارچ کو عورت آزادی مارچ کے صورت میں مشاہدہ کر چکے ہیں. عورت آزادی مارچ کے آڑ میں دراصل یہ آٹے میں نمک کے برابر لوگوں کا مقصد مذہب سے آزاد زندگی گزارنے کی ایک مذموم کوشش ہے. آپ لوگوں نے آزادی مارچ میں دیکھا ہو گا جہاں پلے کارڈ اٹھا رکھے ہوئے ان پر ایسے نعرے درج تھے جس سے واضح طور پتہ چلتا تھا کہ یہ لوگ مذہب کو نشانہ بنا رہے ہیں اور عظیم اور مقدس ہستیوں کی توہین کر رہے ہیں.

مذہب سے آزاد زندگی مطلب دہریت وہ لوگ اپناتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کی وجود پر یقین نہ ہو. 

اب اگر سیکولرزم(Secularism) کے داعیوں کو قائل کرنا ہو تو سب سے پہلے آپ نے اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں ٹھوس عقلی شواھد ڈھونڈنا ہوگا۔

ہمارا مذہب اسلام ہے اور اسلام کی حقانیت ہمیں قرآن و حدیث سے پتا چلتا ہے۔ ہمارے پاس اللہ کے وجود کے شواھد قرآن اور حدیث کے شکل میں تو ہے اور ہم اس میں شک بھی نہیں کرتے پر دہریت(Atheism) کے پیروکار یا ماڈرن معنوں میں سیکولرزم پر یقین رکھنے والے تو اس سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تحریک کے پیروکار کو کیسے قائل کیا جائیگا کہ کوئی ہے جس نے اس تمام کائنات کا نظام ترتیب دیا ہے؟ 

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہےجس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ میں نے یہ تمام کائنات بے فائدہ پیدا نہیں کیا ہے۔ اس کائنات کا مشاہدہ کرو یقیناً اس میں عقل والوں کےلئے نشانیاں ہیں۔ عبادات میں عقل سے کام نہیں لیا جاتا بس جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل فرض ہو جاتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالٰی کی تحلیق کردہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی وجود کے عقلی دلائل ڈھونڈنے کی گنجائش رکھا ہے۔ عقلی شواھد ہمیں سائنس سے ملتے ہیں۔ سائنس کا وہ مطالعہ جس سے ہم اس بات تک پہنچ سکتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی حالق ہے۔ یہ خودبخود نہیں بنا ہے۔ یہ عقلی دلائل ہمیں قرآن کی ان آیتو ںسے بھی ملتی ہیں جس میں سائنس کا ذکر ہے اور اس کے علاؤہ کائنات کے اس بے نقص نظام سے بھی پتا چلتا ہے۔ 



سائنس کی تھوڑی سی علم رکھنے والے افراد دہریت کی طرف راغب ہو جاتے ہے۔ سائنس خود اتنا ایڈوانس نہیں ہو ا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا وجود ظاہر کر سکے البتہ اتنا دسترس رکھ سکتا ہے کہ جو علوم قرآن نے سائنس کے حوالے سے دی ہے اس پر تحقیق کر سکے۔ قرآن مجید میں تقریباً دو ہزار آیات سائنس کے حوالے سے ہے۔ ان دو ہزار میں سے آسی فیصد ٹھیک ثابت ہوئے ہیں۔ باقی بیس فیصد کے بارے میں سائنس کہتا ہے کہ ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ہو سکتے ہیں۔

سائنس کی ایک نظریہ ہے جس کو عام لفظوں میں امکان کی نظریہ(theory of probability) کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق جب قرآن کا آسی فیصد ٹھیک ثابت ہوا ہے تو باقی بیس فیصد بھی ضرور ٹھیک ہونگے۔ 

قرآن کے کچھ حوالے جس میں سائنس کا ذکر ہے درجہء ذیل ہے۔ 

1)    قرآن کی پہلی وحی جس میں انسان کی تخلیق علق سے بیان کیا گیا ہے جس کے چار معنی ہے۔ اس میں ایک معنی جونک جیسے چیز کی ہے۔ پہلے  لوگ کہتے تھے کہ انسان   خون سے بنا ہے۔ پھر سائنس تھوڑی ترقی کر گئے تو کہنے لگے کہ انسان تو لوتھڑے سے بنا ہے۔ پھر مزید سائنس ترقی کر گئے اور تحقیق سے پتہ چلا کہ انسان جب ماں کی پیٹ میں ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے تو جونک جیسے صورت ہوتی ہے۔ایک اور معنی ہے چپکنے جیسے چیز(Clinging)۔   پہلے مرحلے سے نکل کر یہ جونک(Leech) جیسے صورت ماں کی پیٹ سے چپک جاتا ہے اور ماں کی پیٹ سے خون حاصل کرتا ہے۔ ابتدائی چند ہفتوں میں خون کی گردش نہیں ہوتی تو یہ  خون کی لوتھڑے جیسا نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ معنی بھی ٹھیک ہے کہ انسان خون کے لوتھڑے سے بنا ہے۔

2)    قرآن پانی کے چکر(Water cycle) کے بارے میں ذکر کرتا ہے کہ پانی سمندر سے اٹھ کر ہوا اس کو لے جاتا ہے. پھر بارش کی شکل میں زمین کے دوسرے حصوں پر برستا ہے۔ پھر زمین میں جذب ہو کر چشموں کے صورت میں نکل کر دریا بن کر سمندر میں بہہ جاتے ہے۔ یہ بات تو ہر کسی کے عقل میں آ جاتی ہے پر جب پانی بخارات بن کر بادل بن جاتے ہے تو وہ بادل کس طرح ہوتے ہے یہ مشاہدہ تب ہوا جب جہاز نے بادلوں کے اوپر پرواز کیا۔  بادل مخروطے جیسے شکل کی ہوتی ہے جبکہ قرآن مجید میں یہ 1400 سال  پہلے بتایا گیا ہے۔ جو لفظ قرآن میں بادل کےلئے استعمال ہوا ہے اس کا مطلب مخروطے جیسے شکل کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔

3)    آج سائنس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ کائنات دھماکے سے بنا ہے جسے سائنسدان Big Bang   کا نام دے رہے ہیں۔ جبکہ قرآن ہمیں یہ بات تقریباً1400 سال پہلے بتا چکے ہیں کہ یہ کائنات ایک  دھماکے سے بنا ہے۔ یہ زمین اور اسمان ایک مادہ تھا پھر یہ جدا ہوا ۔ مختلف سیارے اور ستارے بنے۔

4)    یہ زمین بضوی شکل  کی ہے۔ یہ پتہ انسان کو  1577  میں چلا جبکہ قرآن میں یہ 1400 سال پہلے بیان کیا  گیا ہے کہ یہ زمین بضوی ہے۔

اس طرح کے بے شمار دلائل ہے جس سے اسلام کی حقانیت اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔قرآن کی ایک آیت کو سائنس آج تک غلط ثابت نہ کر سکا اور مستقبل میں بھی نہیں کر سکتا۔