1999 کی افغانستان اور موجودہ حالات

طالبان افغانستان میں 1994 کو بطور ایک قوت سامنے آئیں۔  جس کی ابتدا صوبہ قندھار  سے ہوئی جس نے جنوبی حصے کو اپنے قبضے میں لیا۔  1996 میں یہ قوت بڑھتا ہوا  اور ملک کی دارالحکومت  قبضہ کیا۔ طالبان کے خلاف  مزاہمت جاری تھی  جس میں زیادہ تر تاجک،ازبک اور ہزارہ  والے شامل تھے۔ 2001 میں  شمالی علاقہ کے سارے افغانستان پر کنٹرول حاصل کی۔

طالبان نے جہادی گروہوں کو افغانستان میں پناہ دینے کی مکمل اجازت دی جس کی سربراہی اسامہ بن لادن کر رہے تھے۔ اسامہ بن لادن امریکہ کو مطلوب تھا جس پر جڑواں عمارت (Twin Tower) کے حملے کا الزام تھا۔

انتہائی حیرانی والی بات ہے کہ کیسے تیسری دنیا کی ایک عسکری قوت جس کے پاس سوائے بندوق چلانے کے  کوئی دوسری ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔ وہ کیسے ایک سپر پاور کے فضائی حدود کو پار کر کے ایک اہم عمارت کو نشانہ بنا لیتے ہے؟

امریکہ اب افغانستان سے نکل رہا ہے۔ کیا امریکہ کے مقاصد پورے ہوئیے؟  کیا طالبان کا مکمل صفایا  کیا گیا؟

افغانستان میں امریکہ دہشت گردوں کو ختم کرنے اور ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے غرض سے آئیے تھے۔ اگر امریکہ ویسے افغانستان چھوڑ کے جا رہے ہیں جو ان کے آنے  سے پہلے تھا تو یہ نام کے سپر پاور جنگ ہار کے بھاگ رہے ہیں اور یا تو آمریکہ دہشت گردی کے بہانے افغانستان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور مسلمانوں کو اپس میں لڑانے کے غرض سے آئے تھے. 

سننے میں آ رہا ہے کہ طالبان نے تقریباً 80 اضلاع پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور بہت تیزی سے اگے بڑھ رہے ہیں۔

امریکہ  اگر حقیقت میں دہشت گردی کو مٹانے آئی تھی تو اب دہشت گردی کو چھوڑ کے کیوں نکل رہے ہیں؟ دو باتیں ہو سکتی ہے۔ امریکہ شکست کھا کے جا رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ مسلمانوں کے خون بہانے آئیے تھے۔ مسلمانوں کو خاص کر پشتونوں کو اپس میں لڑا کر جا رہے ہیں۔

سوال اب پشتونوں سے ہے کہ جب بھی افغانستان میں کوئی بم دھماکہ ہوتی ہے تو الزام پاکستان  پر لگایا جاتا ہے۔  کیا ان افغان محب وطن  اتنی ہمت نہیں کر سکتے کہ  یہ کہہ دے کہ ہم 48 ممالک کے افواج مزید افغانستان میں برداشت نہیں کر سکتے۔ الزام ترشی  کے بجائے عملی اور ٹھوس اقدامات کرنی چاہیے۔ اگر پاکستان افغانستان میں مداخلت کر رہے ہیں  تو ثبوت کے ساتھ ملوث عناصر کو پکڑ کر  سخت سے سخت سزا اور پاکستان کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دے تاکہ اقوام متحدہ اس پر ایکشن لے سکے۔  امریکہ اور ان کے اتحادی فوج کیا کر رہے ہیں؟ کیا وہ بھی پاکستان کی سرحد پار دہشت گردی پکڑنے میں ناکام ہوئے؟

حالات تو مغرب ایسے پیدا کر رہے ہیں کہ  جہاں یہ نام کے امن کے داعی کو اسلحہ استعمال کرنے اور بیچنے کا بہانہ مل سکے۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ پاکستان طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ امن کے راہ میں پاکستان حائل ہو رہا ہے جبکہ پاکستان شروع سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے  کو حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

تاش قند کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ افغان جنگ میں ہم نے 70 ہزار جانیں  اور  اربوں ڈالر کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔

حالانکہ افغانستان سے ہمارے ملک میں دخل اندازی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ 40 سال سے ہم مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں۔ کون سا ایسا ملک  اپنے ہمسایہ کے لئے اتنا کر سکتا ہے؟  ہم مزید پرائیے جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے اور نہ اپنی زمین کو استعمال ہونے دیں گے۔  ہم امن کا پارٹنر بننا چاہتے ہیں نہ کے جنگ کی۔

مختصر یہ کہ طالبان اور افغان حکومت کو ایک میز پر بیٹھ کر  جنگ بندی اور امن کے لئے مل کر کام کرنا چائیے۔ افغان حکومت اور طالبان مذاکرات اور اپس میں اتحاد ہی بیرونی سازشوں کو شکست دے سکتا ہے۔