حضرت عمرؓ کے شہادت سے ایک ایسا دور تابناک ختم ہو گیا، ایک ایسا عہد زریں گزر گیا، جس سے زیادہ تابناک اور زریں عہد آنحضرتؐ کی وفات سے قیامت تک نہ آ سکے گا ۔

 

 شہادت عمرؓفاروق

شہادت عمرؓ ایک دور تابناک جو ختم ہوا

خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کا تعلق قریش کے بنو عدی خاندان سے تھا۔ آپؓ مکہ میں583 عیسوی کو پیدا ہوئیے۔ آپؓ کے والد کا نام خطاب ابن نو فیل تھا۔ آپؓ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

آپؓ ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپؓ اسلام کے سخت خلاف تھے۔ آپؓ نے 615 کو اسلام قبول کیا۔ 622 کو مدینہ منو رہ ہجرت کی۔  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کے وفات کے بعد 634 عیسوی کو خلیفہ منتخب ہوئیے۔ آپؓ کے دور خلافت میں اسلام عرب سے نکل کر تمام دنیا میں پھیل گیا۔  اس  دور کے دو مشہور طاقتیں فارس اور روم آپؓ کے دور خلافت میں فتح ہوئے۔637 کو یروشلم فتح ہوئی۔ عیسا ئیوں نے چرچ کی چابی مسلمانوں کو دی کے وہ اس کے حفاظت کے ذمہ دار ہو گے۔ آپؓ کو عبادت کی دعوت دیا گیا پر آپؓ نے تھوڑے فاصلے پر نماز ادا کی تاکہ مستقبل میں مسلمان اس جگہ کو مسجد میں تبدیل نہ کر دے۔

حضرت عمرؓ اپنی سادہ طرز زندگی کے لئے مشہور تھے۔ اس دور کے حکمران جو رعایا کو اپنا غلام سمجھتے تھے لیکن عمرؓ ان سے بالکل مختلف تھے۔ خود کو رعایا کا خادم سمجھتے تھے۔ رات کی تاریکی میں بھیس بدل کے مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر سمندر کے کنارے ایک کتا پیاس سے مر  جائیے تو بھی اس کا ذمہ دار عمرؓ ہو گا۔

آپؓ نے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے شرائط اور ضوابط وضع کی جو مسلمانوں کے ساتھ حفاظتی معاہدوں میں شامل ہوئیے تھے۔

اسلام  کی حقیقت سے واقف ہونے کے بعد آپؓ سیدھا ابو جہل کے پاس گیا۔ ابو جہل نے تو پہلے خوشی کا اظہار کیا لیکن آپؓ نے سب کچھ بالائی طاق رکھتے ہوئیے اچانک ابو جہل کو فرمانے لگے کہ میں اب اللہ تعالی کو معبود بنانے لگا ہوں اور محمدؐ کو اللہ کا رسول تو ابو جہل نے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئیے اپنے مکان کے دروازے بند کر لئے۔

حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے پہلے اسلام کو مخفی رکھا جاتا تھا۔ کسی میں جرات نہیں تھا کہ روبرو کفار مکہ کے سامنے اپنی ایمان کا اظہار کر سکے۔ اب مسلمان آز ادانہ طور پر اسلام پر عمل پیرا  ہونے لگے۔

شہادت عمرؓ  کا واقعہ

حضرت عمرؓ کے شہادت سے ایک ایسا دور تابناک ختم ہو گیا، ایک ایسا عہد زریں گزر گیا، جس سے زیادہ تابناک اور زریں عہد آنحضرتؐ کی وفات سے قیامت تک نہ آ سکے گا ۔ مغیرہ بن شعبہؓ کا ایک غلام جس کا نام فیروز  اور کنیت ابولولو تھا جو قیدیوں میں آیا تھا۔ یہ غلام حضر عمرؓ سے شکایت  کرنے کے بعد مسجد کے کسی کونے میں چھپ جاتا ہے اور نماز کے دوران  آپؓ پر قاتلانہ حملہ کر دیتا ہے۔

حملے میں حضرت عمرؓ کے علاوہ چند اور صحابہ ؓ بھی زخمی ہوئیے تھے۔  حضرت عمرؓ پر خنجر کے چھ وار کی گئی۔ زخم کے صدمے سے آپؓ گر پڑے اور نماز حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے پڑھائی۔

زخم کے تاب نہ لاتے ہوئیے آپؓ جمعرات کے  دن23ہجری 27   ذی الحجہ644 عیسوی کو شہید ہوئیے اور حضرت عائشہؓ کی اجازت سے رسول اللہ ؐ کے پہلو میں دفن ہوئیے۔ 

Post a Comment

1 Comments

  1. اللہ پاک اُنکے اور درجات بلند فرمائے ۔

    ReplyDelete