Rahman Baba



رحمان بابا

رحمان بابا پشتو زبان کی ایک نامور شاعر ہے۔ رحمان بابا کی زیادہ تر شاعری عشق حقیقی پر مبنی ہے۔ پشتون قوم  میں رحمان بابا  کے شاعری کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔

رحمان بابا بہادر کلے ہزار خوانی پشاور (Peshawar) میں 1632 کو پیدا ہوئے۔ اس وقت برصغیر پر مغل کی حکمرانی تھی۔

رحمان بابا کا تعلق مہمند قبیلے جو غوری خیل قبیلے کی ذیلی شاخ ہے۔ یہ قبیلہ دراصل غزنی  سے ہجرت کر کے افغانستان کے صوبہ ننگرهار میں آباد ہوئے۔  پھر پندرہویں، سولہویں صدی میں پشاور کے مضافات میں آباد ہوئے۔

رحمان بابا کے خاندان کے بارے میں تاریخ  اتنا نہیں جانتا۔ ان کے بارے میں لوگوں کے مختلف رائے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنے علاقے کے  بڑے اور عزت دار تھے۔ تاریخ رحمان بابا کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ ان کے اشعار کے مجموعہ جسے دیوان رحمان بابا کہا جاتا ہے، وہی دیوان رحمان بابا کی زندگی کے بارے کسی حد تک بتاتے ہیں۔

اس کے ہاتھ کے اصل لکھائی کے تقریباً پچیس نمو نے (Script) موجود ہے جو دنیا کے مختلف ممالک کے لائبریریوں میں  پڑے ہیں۔ ان میں سے 10 پشتو اکیڈمی پشاور میں موجود ہے۔

رحمان بابا کے کلام کو پشتون قوم میں بہت بڑی درجہ حاصل ہے۔ بعض ان کو قران و حدیث کے بعد دوسری بڑی درجہ دیتی ہے۔ ان کے اشعار میں بھائی چارہ ،امن اور محبت کا درس ملتا ہے۔ رحمان بابا جس دور میں پیدا ہوئے تو اس وقت پشتون قبائل کے مابین جنگیں تھی۔ مغل کے ساتھ بھی دشمنی تھی۔ رحمان بابا نے اس وقت بھی جنگ و جدل سے خود کو دور رکھا اور اپنے کلام کے ذریعے سے امن، بھائی چارے کا درس دیا۔ ایک طرف مغل کی غلامی سے بیزاری اور دوسری طرف اپنے قبائل کے بے مقصد جنگ و جدل اور دشمنی   کے خلاف تھے۔ اس نے اپنے قبائلی جنگوں میں کبھی بھی حصہ نہیں لیا۔ وہ عاشق رسول اور ایک پکا سچا مسلمان تھا جو بحیثیت ایک مسلمان کے  سوچتے تھے۔ اس کو پشتونوں کا رومی بھی کہا جاتا ہے۔

رحمان بابا نے گھر سے دور تنہائی میں اپنی زندگی گزاری۔ یہ سچا عاشق رسولؐ 1715 کو وفات ہوئےاور ہزار خوانی میں دفن ہوئے۔

ہر سال  اپریل میں لوگ بڑی تعداد میں مزار پر حاضری دیتے ہیں اور ان کے کلام پڑتے ہیں۔

ان کے چند مشہور اشعار بمعہ ترجمہ درجہ ذیل ہیں۔

که صورت دَ محمد نه وي پيدا 

پيدا کړې به خداى نه وا د دنیا

اگر اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم کو پیدا نہ کیا ہوتا تو یہ تمام کائنات بھی پیدا نہ کرتا.

 

ښه ده ښه ده دا دنیا 

چې توښه ده دَ عقبا

اس شعر میں رحمان بابا دنیا کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ دنیا میں انسان کا آنا اور یہ دنیا بے مقصد نہیں بلکہ اس دنیا میں انسان کا کیا ہوا عمل کے بدولت اخرت کا سودا کر سکتے ہیں.

زه رحمان چې ستا دَ حُسن ثنا خوان يم

ستا له رويه درست جهان ځما ثنا کړه

ستا په مخکښې چې حساب دَ جمال نيشته

ځکـه ما څخه دَ صبر مجال نه شته٠ 

دوباره دِ راتله نشته په دنیا 

نن دِ وار دۍکه دروغ کړي که رښتيا 

اس شعر میں رحمان بابا فرما رہے ہیں کہ یہ دنیا اعمال کی جگہ ہے۔ مرضی آپ کی ہے چاہے نیکی کرو یا بدی، بدلہ قیامت کے دن ملے گا اور اس دنیا سے کوچ جانے کے بعد دوبارہ نہیں آ سکے گا۔